بچوں میں تسکین اور لذت تلاش کرنے کی عادت
آخری قسط
اس سوال کے جواب میں ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ رکاوٹ کا فوراً اور بلاواسطہ اثر پڑتا ہے۔ کہ بچوں میں ایک طرح کی خلش یا کھچاﺅ سا پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ خلش سب سے پہلے انہیں اس رکاوٹ کو دور کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن اگر خلش شدید قسم کی ہو تو ان کے کردار کے مختلف پہلو اس سے متاثر ہوں گے اور اس عمل میں اس وقت کے حالات اور موجودہ ذرائع کا بھی بہت کچھ دخل ہو گا اگر اس کشمکش کے دوران میں کوئی اور دلچسپ کام مل جائے تو خلش کا عمدہ اثر پڑے گا۔اس طرح رکاوٹ متاثر ہونے میں خود اس شخص کی اپنی طبیعت بھی کار فرما ہوتی ہے جو ایسے مواقع سے کام لینے کے مختلف طریقے سیکھ لیتی ہے۔بعض بچے اس قسم کی صورت حال کا اس لئے کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسے طریقے سیکھ لئے ہوتے ہیں لیکن جو بچے ایسے تجربوں سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ ان کے کردار پر رکاوٹ کا یقینا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ انہیں رکاوٹ سے نپٹنے اور معاملہ طے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں آتا۔نفسیات سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ رکاوٹ سے نپٹنے کے موثر طریقے بتائے۔ سب سے آسان اور فطری طریقہ یہ ہے کہ رکاوٹ سے براہ راست نپٹا جائے۔ مندرجہ بالا تجربے میں بعض بچوں نے ان دو کمروں کی درمیانی دیوار کو ہٹانے کی سر توڑ کوشش کی۔ اس فطری طریقے کا اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں کے راستے میں جب بھی کوئی چیز حائل ہوتی ہے۔ تو والدین رکاوٹ دور کرنے کا براہ راست طریقہ اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ بچے اپنے ذاتی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ مزاحمت دور کرنے کے کسی ایک طریقے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تو وہ ضرورت کے وقت اسی کو استعمال کریں گے لیکن اگر اس میں ناکام رہیں تو پھر کوئی اور راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ناکامی کا بچوں کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے بعض اوقات ایک ناکامی بیسیوں ناکامیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اس خطرے سے محفوظ رکھنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ جو بچے مزاحمت اور رکاوٹ کے نتیجے میں غیر پختہ کردار کا مظاہر ہ کریں۔ انہیں تربیت کے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں جن میں وہ بتدریج کامیابی حاصل کر سکیں۔ ایسا کرنے سے بچے مزاحمت کے موقع پر رونے اور چلانے سے گریز کریں گے۔ ان میں ذاتی اعتماد پیدا ہو گا اور وہ جذباتی بننے سے محفوظ رہیں گے لیکن یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ ہر شخص کی زندگی میں ایسی رکاوٹیں ضرور پیش آتی ہیں۔ جنہیں دور کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسے موقعوں پر بچوں کو کوئی اور تسکین اور لذت تلاش کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔یہ درست ہے کہ ایسی مصنوعی فعالیتیں مکمل اور پر اصل محرک کی جگہ نہیں لے سکتیں اور نہ ہی ان سے پوری پور ی تسکین مل سکتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسی حرکتیں غیر پختہ کردار کی علامت ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً جب اس تجربے میں بچوں پر دلکش کھلونوں والے کمرے کا دروازہ بند کر دیا گیا تو چند بچے دوسرے کمرے سے باہر جھانک رہے تھے۔ ان کا یہ طرز عمل اس تسکین تک پہنچنے کا ایک غلط اور ناکافی کردار تھا جس سے وہ محروم کئے جا چکے تھے۔ بعض اوقات ایک اختیاری فعالیت اصل رکاوٹ کو دور کرتے کرتے مزید رکاوٹیں پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس قسم کا طرز عمل صرف بچوں تک ہی محدود نہیں بلکہ نوجوانوں کو بھی ناکامی کے موقعوں پر ایسا بدل مل جاتا ہے جو طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی ذہنی یا عصبی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اپنے نزاعی امور نبٹانے کیلئے ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جیسے ہسٹریا کا مریض کسی نزاعی صورت حال سے بچنے کی خاطر معدے کی کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے یا اس کے جسم کے بعض اعضابے حس ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح سے مشکلات حل نہیں ہوتیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے تسکین حاصل کرنے کے مصنوعی ذرائع ہمیشہ حربے نہیں ہوتے۔ دراصل ان کے مفید یا نقصان دہ ہونے کا انحصار موقع محل پر ہے۔ اگر والدین ذرا سوجھ بوجھ سے کام لیں تو وہ ایسے وسائل اختیار کر سکتے ہیں۔ جن کے ذریعے مزاحمت کے برے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ مثلا بچوں کو کھیلنے والے کمرے سے محروم کرنے کے بعد باہر لے جا کر کسی اور دلچسپ کھیل میں مشغول رکھا جاتا تو ان کی توجہ دوسری طرف مبذول ہو جاتی اور اس طرح وہ رکاوٹ کے اثرات شدت سے محسوس نہ کرتے۔ اصل کی جگہ لینے والی اس دوسری فعالیت کے متعلق یہ اصول یا د رکھنا چاہئے کہ اس سے اس اصلی بنیادی خواہش کی تسکین ضرور حاصل ہونی چائیے۔یعنی جب بھی بچے کو اس کی کسی خاص مقصد والی فعالیت سے روکا جائے تو اس کا بدل کسی ایسے کام میں تلاش کرنا چاہئے جس کا محرک زبردست بھی ہو اور برانگیختہ کرنے والا بھی۔اب ہم ایک اور بہت ہی اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں یعنی سزا کو بطور رکاوٹ استعمال کرنا۔ اس ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب رکاوٹوں کے بعد بچوں کی مناسب فعالیت کا کوئی بدل تلاش کیا جاتا ہے تو کیا بچوں کو سزا دینے کے بعد بھی ان کے لئے ایسی فعالیت کا انتخاب ضروری ہے جس سے انہیں تسکین پہنچ سکے؟ ظاہر ہے اس کا جواب اثبات میں ہونا چاہئے۔ سزا محض کسی ناپسندیدہ کام کے راستے میں سد سکندری کا کام دیتی ہے اور جب یہ مقصد پورا ہو جائے تو ہم بچوں سے کس بات کی توقع رکھیں؟ کیا یہ کہ وہ خاموش ہو کر اپنی مصیبت پر آنسو بہائیں یا وہ کسی اور کام میں اپنا دل لگائیں۔ دوسری رکاوٹوں کے موقع پربا ہم تسکین پہنچانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور ہونا چاہئے۔ مثلاً جب کوئی لڑکا میچ ہارنے کے بعد غمگین صورت بنائے گھر آتا ہے تو ہم اس کی دلجوئی کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ اسی طرح سزا ملنے کے بعد بچہ جب بہت غمزدہ ہو جاتا ہے تو اس کا دل بہلانے اور تسلی دینے کی ہم کیوں کوشش نہ کریں! اگر ہم سزا کے بعد اس کی دلجوئی کا سامان مہیا نہیں کرتے۔ تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے ہمارے ذاتی احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہمیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ سزا کے بعد اس سے اچھا سلوک کیا گیا تو اس میں وہ احساس پیدا نہیں ہو گا جس کے لئے اسے سزا دی گئی تھی۔ بظاہر کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کہ بچے کو خوش کرنے اور اس کے ناپسنددیدہ کام کا مناسب بدل تلاش کرنے میں بچے کی راہنمائی نہ کی جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم سزا کو ذاتی غصہ نکالنے کے طور پر استعمال نہ کریں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 40
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں